سوشل میڈیا قوانین، آئیڈیاز قید کرنے کا منصوبہ؟
پی جے اے کی بھرپور مذمت
سوشل میڈیا کی طاقت پر حکومت میں آنے والی پی ٹی آئی اب خود اسی سوشل میڈیا سے خوفزدہ ہے۔ایک دور تھا جب اخباروں کی ہیڈ لائنز پر حکومتیں ہل جایا کرتی تھیں۔ انقلابی شاعروں کے اشعار پر سیکیورٹی ادارے حرکت میں آجاتے تھے۔ تعلیمی اداروں میں نعرہ بلند ہوتا تو تحریک بن جاتی۔ لیڈروں کی تقریروں میں دم خم ہوتا تھا۔ لیڈر لڑنے مرنے کی بات کرتا تو پورا مجمع یک زبان ہوکر لبیک کہتا۔ پھر بندوق کا دور آیا۔ علم کو زوال اور کرپشن نے عروج پایا۔ نوجوانوں کے ہاتھوں سے قلم اور کتاب لے کر بندوق تھما دی گئی۔ دلیل کی جگہ گالی نے لے لی۔ ذہن مفلوج ہوتے گئے۔ میڈیا کا جمعہ بازار تو ہے لیکن کہے گئے الفاظ میں وزن نہیں۔ آج عالم یہ ہے کہ ہمارے پاس کوئی اچھا ذہن، بڑا تخلیق کار نہیں۔ اگر کوئی لکھنا جانتا ہے تو اس کے الفاظ پر کوئی اور قابض ہے۔ ایسا کوئی لیڈر نہیں جس کی ایک کال پر پوری قوم یک زبان ہوجائے۔ ایسا کوئی عالم نہیں جس پر سب مسالک متفق ہوں۔ جب بھی ملک پر کڑا وقت آتا ہے، کوئی بحران آتا ہے تو پوری قوم ”پنڈی“ کی طرف دیکھتی ہے۔ایسے میں ایک امید تھی سوشل میڈیا۔ یہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس پر جو چاہے اپنے آئیڈیاز شیئر کرسکتا ہے۔ اپنے مسائل بیان کرسکتا ہے۔ سوشل میڈیا شاید اس نیت سے تخلیق کیا گیا کہ بلا رنگ و نسل و مذہب و ملت، کرہ? ارض کو اصلی گلوبل ولیج بنادے گا۔ ہم اپنے دکھ سکھ ریئل ٹائم میں بانٹنے کے قابل ہوجائیں گے بلکہ ان گنت مشترکہ مسائل کے درجنوں حل بھی ڈھونڈھ سکیں گے۔ شاید پہیے کی ایجاد کے بعد سب سے اہم ایجاد انٹرنیٹ ہے۔ سوشل میڈیا نے لوگوں کی زباں بندی کو ہمیشہ ہمیشہ کیلیے کالعدم کردیا ہے۔ اب خبر پر خبر کے ٹھیکیداروں کی اجارہ داری ختم ہوچکی ہے۔ کوئی میرا مضمون چھاپنے سے انکار کرے گا تو میں اسے فیس بک پر ڈال دوں گا۔ جن ریاستوں میں سوشل میڈیا کو سائبر زنجیر پہنانے کی کوشش کی گئی، وہیں کے دس پندرہ سال کے بچوں نے ان زنجیروں کو توڑ کر رکھ دیا۔ یہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس پر کوئی بھی اپنے جذبات کا کھل کر اظہار کرسکتا ہے۔
Comments
No comment yet.