ڈاکٹر سارا سلیم ٭ مسیحا کہ روپ میں ایک فرشتہ تحریر : حشمت خان
ڈاکٹر سارا سلیم ٭ مسیحا کہ روپ میں ایک فرشتہ
تحریر : حشمت خان
میں نے کبھی کہیں پڑھا تھا کہ اللہ پاک نے فرشتوں کی ڈیوٹی لگائی ہوتی ہے کہ وہ انسانی روپ میں آکر انسانوں کی مدد کرتے ہیں لیکن میں نے کبھی دیکھا نہیں تھا کہ کیسے فرشتے انسانوں کے روپ دھار کر انسانوں کی مدد کر رہے ہوتے ہیں ایک تجسس ضرور تھا کہ ہم انہیں کیسے پہچان سکتے ہیں میرا یہ تجسس پچھلے دنوں لاہور ڈاکٹر ہاسپٹل میں ختم ہوا جب میں نے ایک فرشتے کو انسانیت کی خدمت کرتے ہوئے دیکھا وہ فرشتہ تھی ایک ڈاکٹر اس ڈاکٹر کا نام تھا ڈاکٹر سارہ سلیم ڈاکٹر صاحبہ ایک انتہائی نفیس خوش اخلاق اور اپنی فیلڈ یعنی کارڈک( دل کے امراض )کی ایک با صلاحیت ڈاکٹر ہیں جو ڈاکٹر خالد حمید کی ٹیم کو لیڈ کرتی ہیں اپ سوچیں گے کہ ڈاکٹر تو کافی اچھے ہوتے ہیں یہ خصوصیات تو ہر ڈاکٹر میں پائی جاتی ہیں جی بالکل ہوتی ہوں گی لیکن مریض کو اپنی باتوں سے اپنے اخلاق سے اپنی ہنسی مذاق سے ٹھیک کرنا وہ ڈاکٹر نہیں ایک فرشتہ ہی کر سکتا ہے مجھے یہ تجربہ اور اس فرشتے سے شناسائی اس وقت ہوئی جب میں اپنے چھوٹے بھائی کو لے کر ڈاکٹر ہاسپٹل گیا جہاں اس کی اوپن ہارٹ سرجری ہونی تھی ہسپتال میں ایڈمٹ ہونے کے بعد اگلے ہی دن ہمیں انسان اور فرشتے کا فرق معلوم ہو گیا جب پاکستان کے بہترین ہارٹ سرجن ڈاکٹر خالد حمید کے وزٹ کے موقع پر مریض اور ڈاکٹر کے درمیان ایک سرسری سا تعلق نظر آیا
اس کے تھوڑی دیر بعد ڈاکٹر سارہ کا وزٹ تھا وہ جب کمرے میںآئیںتو ڈاکٹر سارہ نے اس موقع پر مریض کے ساتھ اتنی سحر انگیز گفتگو کہ کمرے میں موجود تمام لوگ ڈاکٹر سارہ کی خوبصورت باتوں میں کھو گئے تب مجھے احساس ہوا کہ یہ ڈاکٹر ایک مسیحا کے روپ میں فرشتہ ہے یہاں میں ایک دلچسپ بات اپ کو بتاؤں کہ ڈاکٹر سارہ ہو بہو پاکستان ڈرامہ انڈسٹری کی ماضی کی خوبصورت اداکارہ ہما نواب سے بہت مشابہت تھی بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ وہ ڈاکٹر سارہ اور ہما نواب جڑواں بہنیں لگتی ہیں تو کوئی غلط نہ ہو گا اچھا خیر واپس آتے ہیں ہسپتال کے کمرے میں ڈاکٹر سارہ سے پہلی ملاقات ہی ہمیں اور ہمارے مریض کو گرویدہ کر گئی ان کی چھوٹے بھائی سے آپریشن کے متعلق گفتگو اتنی پراثر تھی کہ مریض اپنی تکلیف اور اوپن ھارٹ سرجری کا خوف بھول گیا یہاں مجھے انسان اور فرشتے کا فرق معلوم ہوا کیونکہ ڈاکٹر خالد حمید بھی ڈاکٹر تھے اور پاکستان کے مشہور ترین سرجن ہیں جن کی انفیکشن پرسنٹیج زیرو ہے لیکن ان کا رویہ ان کا سٹائل بالکل اور خالصتا انسانی تھا
ڈاکٹر خالد کے وزٹ سے پہلے ہسپتال کا عملہ اتنا خوف زدہ ہوتا تھا کہجیسے کوئی آرمی چیف کا فوج پر سکیورٹی گارڈ لفٹ آپریٹر صفائی والا عملہ سے لے کر آن ڈیوٹی ڈاکٹر کے چہروں پر خوف ہی خوف نظر اتا تھا میں یہ نہیں کہتا کہ وہ غلط کرتے تھے ایک ہیڈ اف ڈیپارٹمنٹ کا اتنا رعب ہونا چاہیے لیکن وہ امراض قلب یعنی دل کے ڈاکٹر ہیں اور دل کے ڈاکٹر کو تو چاہیے کہ مریض کو اپنے رویے سے آدھا صحت یاب کردے یہ کام کرتی تھی ڈاکٹر سارہ ڈاکٹر سارہ کے وزٹ کے وقت وہی سکیورٹی گارڈ وہی لفٹ اپریٹر وہی صفائی والا عملہ اور وہی آن ڈیوٹی ڈاکٹرز کے چہرے کھلے ہوتے تھے ان کی مسکراہٹیں ان کی انکھوں میں ڈاکٹر سارہ کی تعظیم بتاتی تھی کہ ڈاکٹر سارہ سے وہ کتنی محبت کرتے ہیں اور تو اور دل کے مریض بھی
اپنے چاک زدہ سینے اور قلب بسمل
کے ساتھ ان کے وزٹ کا انتظار کرتے تھے آخری دن جب ہمیں ڈسچارج کیا گیا تو ان کی
Motivational Speec
جو انہوں نے مریض کو دی وہ ایسی Speech تھی جس کے بعد مریض جو پہلے اپنے Anxiety Stress
کی وجہ سے بہتری کی طرف نہیں جا رہا تھا وہ نہ صرف اٹھ کر بیٹھ گیا بلکہ اس کے چہرے پر ایک اطمینان اور سکون کی لہر نظر ائی جس کے بعد مجھ جیسا ناقد بھی اس فرشتے کی تعریف کرنے پر مجبور ہو گیا یہ میرا پہلا آرٹیکل ہے جو میں نے کسی کی تعریف میں لکھا ہے ورنہ تو میرے آرٹیکل عموما تنقیدی ہوتے ہیں آرٹیکل لکھتے ہوئے ہائپر ہو جانا سخت ترین الفاظ کا استعمال کرنا یہی میرا طریقہ ہوتا تھا لیکن یہ آرٹیکل لکھتے ہوئے ایک خوبصورت احساس ہر لمحہ میرے ساتھ رہا کہ میں ایک فرشتے پر اپنی قلم کاری کے جوھر دکھا رھا ھوں
اسے ملتی ہے ۔۔جسے دیتا ہے خدا
عزتوں کو دوکانوں سے خریدا نہیں جاتا
Comments
No comment yet.